محمد ارشد
محمد اسحاق قریشی
Department of Islamic Studies
PhD
National University of Modern Languages
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
2009
Completed
Islamic Studies
Urdu
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676728744550
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
زندگی تو گزر جاتی ہے، جو زندہ ہے اُس نے بالآ خرسفرآخرت کرنا ہے، جو سانس لے رہا ہے اُس نے جان، جان آفریں کے سپرد کرنی ہے، کوئی بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے، کوئی کسی ڈوبنے والے کو سہارا دیتے ہوئے خودلہروں کے سپرد ہو جا تا ہے۔ کوئی مزمّن بیماری کا شکار ہو کر حکیموں اور ڈاکٹروں کے نسخے استعمال کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ دیتا ہے۔ کوئی راہزن کے ہتھے چڑھ کر اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی زوجہ کو بیوہ کر جاتا ہے۔ لیکن قابلِ صد افتخار ہیں وہ لوگ جو ملک و ملت کی خاطر سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دشمنوں کی توپوں کا نشانہ بنتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔شہید کوقرآنِ پاک میں بھی زندہ فرمایا گیا ہے بلکہ یہاں تک فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ انہیں مردہ گمان بھی نہ کرو، خودتو زندہ ہیں ہی لیکن موت کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر اور نظروں سے دائمی اوجھل ہو کر قوم و ملت کو حیات ِنو کی نوید سنا جاتے ہیں ، شہید کی زندگی قوم کی حیات ہے۔ شہید بحثیت مجاہد سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے، سرحدوں پر پہرہ دیتاہے، اقوام خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے اور شہید توپوں کی گھن گرج میں رات کی ساعتیں گزار رہا ہوتا ہے۔ شہادت ایک زیور ہے، جس کے زیب تن کرنے سے جسمانی خدوخال کے علاوہ روحانی نکھار بھی آجاتا ہے۔ شہید اپنی قوم کے عروج میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
قوم اس وقت اپنے مستقبل کی درخشندگی کے لیے مستعد ہوتی ہے جب وہ ذہنی طور پر آسودہ ہو، فکری اعتبار سے توانا ہو اور اس قسم کے ماحول کی تشکیل کے لیے شہید کا وجود...