Sahib Raza Husnain Kharal
Department of Management Sciences
Mphil
National University of Modern Languages
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
2007
Management Sciences
English
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676728761646
ارشاد ڈیروی کے فن و شخصیت کا اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے ، تو اسی کی دہائی میں ’’ نین سوالی‘‘ لے کر1995ء میں ادبی منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے، جس میں ان کے ڈوہڑے ، قطعے ، گیت اور ابتدائی دور کی غزلیں شامل ہیں، مگر یہ ابتدائی چیزیں اس بات کی غماز ہیں کہ:
’’دل طائر میں اڑنے کا ابھی امکان باقی ہے‘‘
’’نین سوالی ‘‘ کا چاہئے ڈوہڑا ہو یا گیت ، قطعہ ہو یا غزل امکانات سے بھرپور ہے، ارشاد ڈیروی ایک بااعتماد شاعر ہیں انھیں اپنے کام اور کلام پر مکمل یقین ہے، کلامِ شاعر یزبان شاعر مشاعرے اورسٹیج پہ سننے کا انھیں ایک اپنا لطف ہے۔
ارشاد ڈیروی کے مجموعہ ہائے کلام کے ناموں پر اگر غور کیا جائے تو ان کے تلازے اور علامتیں انھوں نے شعوری اور غیر شعوری طور پر استعمال کیے ہیںان کے پیچھے ایک ایک داستان مل سکتی ہے، شاعر کا الفاظ کا استعمال اگرچہ بظاہر غیر محسوس انداز ہی ہوتا ہے ، مگر
تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیے
ہر لفظ کی تہہ میں ایک بات ہوتی ہے، اور درحقیقت بات وہی ہوتی ہے ارشاد ڈیروی کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے ، کہ وہ صرف شاعرہی نہیں یعنی خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنے والا ہی نہیں بلکہ ایک محنت کش بھی ہے، اور مزدور بھی جن کے بارے میں ملتا ہے، الکاسب حبیب اللہ یعنی محنتی اللہ کا دوست ہے۔ان کے’’نین سوالی ‘‘ لب ورخسار کا نہیں پوچھتے ، بلکہ دل دہلادینے والے حسرت زدہ سوالی نین ہیں، یہ وہی سوال ہیں جن کے بارے میں فیض احمد فیض نے کہا تھا!
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ