Javeeria Naz
Department of Management Sciences
Mphil
National University of Modern Languages
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
2009
Management Sciences
English
2021-02-17 19:49:13
2024-03-24 20:25:49
1676728767137
اُردو میں افسانوی تنقیدکا نیا پیراڈائم اور آصف فرخی"عالمِ ایجاد" کی روشنی میں
ایم۔ خالد فیاض
اکیسویں صدی میں سنجیدہ تنقید کا پورا اسٹکچر بدل گیا ہے۔ تھیوری اور فکشن کے حوالے سے بیانیات کے مباحث نے فکشن کی تنقید کا پورا پینترا ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس ذیل میں مغرب میں تو بے شمار کام ہو رہا ہے لیکن ہمارے ہاں بھی چند ناقدین ہی سہی کچھ نہ کچھ عمدہ کام کر رہے ہیں۔ ان میں گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے بعد قاضی افضال حسین اور شافع قدوائی کی مثالیں تو سامنے کی ہیں جب کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے فکشن کی اب تک جو تنقید کی ہے اُس کا حاوی رجحان یہی ہے۔ آصف فرخی کی افسانوی تنقید کے بارے میں ہم یہ تو نہیں کَہ سکتے کہ وہ سراسر بیانیات کے ڈسپلن کے تابع ہے اور اس تھیوری سے کہیں انحراف نہیں کرتی؛ ہاں مگر اس تنقید کی نمایاں صورت، بیانیات کے بنیادی مباحث سے توانائی ضرور حاصل کرتی ہے۔
کسی فن پارے میں ‘‘کیا’’ ہے کی بحث اب اُس طرح معنویت کی حامل نہیں رہی جیسے اس سے پہلے مسلسل رہی ہے، اب افسانوی تنقید کا بنیادی سروکار ‘‘کیسے’’ سے ہوتا جا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ بیانیات کی بحث (جس میں تھیوری کا عمل دخل ہے) میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک افسانوی متن کیسے بامعنی بن رہا ہے یا بنتا ہے، یا یہ کہ کیسے ایک تخلیق کار اپنے فن پارے کی سیٹنگ کرتا ہے کہ وہ بامعنی بن جاتا ہے۔ اس ‘‘کیسے’’ کے ساتھ خود بہ خود ‘‘کیوں’’ بھی جڑ جاتا ہے۔ مثلاً اس افسانوی فن پارے میں کیوں یہی طریقۂ کار اختیار کیا گیا۔؟ کیوں ایسی ہی سیٹنگ...