Search or add a thesis

Advanced Search (Beta)
Home > سعادت حسن منٹوبطور مضمون نگار اور خاکہ نگار : تحقیقی و تنقیدی جائزہ

سعادت حسن منٹوبطور مضمون نگار اور خاکہ نگار : تحقیقی و تنقیدی جائزہ

Thesis Info

Author

سید کامران عباس کاظمی

Department

Department of Urdu

Program

Mphil

Institute

National University of Modern Languages

Institute Type

Public

City

Islamabad

Province

Islamabad

Country

Pakistan

Thesis Completing Year

2008

Subject

Urdu Language

Language

Urdu

Added

2021-02-17 19:49:13

Modified

2024-03-24 20:25:49

ARI ID

1676728812065

Similar


سعادت حسن منٹو اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ انہوں نے دیگر تخلیقی اور غیر تخلیقی جہات میں بھی طبع آزمائی کی ہے جن میں صحافتی کالم، ریڈیائی ڈرامہ،مضمون نگاری اور خاکہ نگاری میں انُہیں خاص شہرت حاصل تھی۔ اس مقالے کاموضوع س”عادت حسن منٹو بطور مضمون نگار اور خاکہ نگار (تحقیقی و تنقیدی جائزہ) “ہے۔ مقالے کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے۔ پہلے باب میں اردو مضمون نگاری کی روایت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون نگاری کے آغاز و ارتقا کے علاوہ اس کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون اور مضمون نگاری کی فنی ضروریات کا احاطہ کرنے کے علاوہ اس باب میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ باقاعدہ اردو مضمون نگاری سے قبل اردو نثر کا رواج موجود تھا تاہم مضمون نویسی یا انشا پردازی کا با قاعدہ آغاز دلی کالج کے استاد ماسٹر رام چندر اور بعد ازاں سر سید تحریک سے ہوا۔ اس سے قبل اردو نثر میں زبان و بیان میں تصنع اور تکلف کے سبب خیالات کی روانی متاثر ہوتی تھی لیکن دلی کالج اور سرسید تحریک نے اردو مضمون نگاری کو ایسا اسلوب عطا کیاجس میں علمی،ادبی،سائنسی،مذہبی اور معاشرتی ہر طرز کے مضمون لکھے جا سکتے تھے۔ اس باب میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ اردو کے ابتدائی مضمون نگار کون کون سے تھے اور مضمون کی اولیں صورتیں کیا تھیں جبکہ اردو مضمون نگاری ماسٹر رام چندر اور سر سید کے عہد سے لے کر منٹو کے عہد تک کیسے ارتقاء پذیر ہوئی اور اس میں کیا نمایاں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ دوسرا باب منٹو کے مضامین سے متعلق ہے۔ اس میں منٹو کے مضامین کے موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ منٹو کے مضامین میں ان کے انشائی، فکاہی،ادبی و شخصی،سیاسی و سماجی اور فلمی موضوعات پر مبنی مضامین کے حوالے سے منٹو کے ادبی ،سیاسی اور سماجی نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ منٹو کے ادبی، سیاسی و سماجی نظریات ان کے عہد سے ہم آہنگ تھے۔ منٹو کے عہد میں علمی مضمون نگاری کا رواج ہو چکا تھا لیکن ان کے مضامین کا عمومی انداز فکاہی ہی رہا۔ تاہم اس باب میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ منٹو کے انتخاب کردہ موضوعات اپنے اندر ایک گہری سنجیدگی اور تفکر بھی رکھتے ہیں۔ تیسرے باب میں منٹو کی اہمیت بطور مضمون نگار متعین کی گئی ہے۔ نیز ان کے مضامین کے اسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ منٹو کے مضامین پر ان کے افسانوں کا اسلوب کس قدر اثر انداز ہوا ہے اور اردو مضمون نگاری میں منٹو کے اسلوب کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔ نیز اسی باب میں منٹو کی بحیثیت مضمون نگار اہمیت متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چوتھا باب اردو ادب میں خاکہ نگاری کے آغاز و ارتقا اور اس کے فن سے متعلق ہے۔ اس باب میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو ادب میں خاکہ نگاری کے آثار بعض قدیم تذکروں اور سوانح میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تا ہم " آب حیات" اس ضمن نمایاں تذکرہ ہے جس میں خاکہ نگاری کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ اسی طرح اردو خاکہ نگاری کے ارتقاء میں دیگر خاکہ نگاروں کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی باب میں اردو خاکہ نگاری کے فن پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ نیز ایک جائزہ اردو خاکہ نگاری کی تاریخ کا بھی لیا گیا ہے۔ سعادت حسن منٹو کی خاکہ نگاری کا مفصل جائزہ پانچویں باب میں لیا گیا ہے۔ اس باب میں منٹو کے خاکوں کو تین بڑے عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیاسی،ادبی و صحافتی اور فلم کے شعبے سے وابستہ شخصیات پر مشتمل خاکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی باب میں منٹو کی خاکہ نگاری کے نمایاں اوصاف اور اردو فن خاکہ نگاری پہ ان کی دسترس نیز اردو خاکہ نگاری میں افسانوی طرز اظہار کے حوالے سے ان کے خاکوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ چھٹا باب فن خاکہ نگاری میں منٹو کے مقام کے تعین کے بارے میں ہے۔ اس میں منٹو کے خاکوں کے اسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز ان کے اسلوب کے نمایاں اوصاف اور ان کے اسلوب کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور ان کے ہم عصر اہم خاکہ نگاروں سے ان کا تقابل کرتے ہوئے اردو خاکہ نگاری پر ان کے اثرات اور اردو خاکہ نگاری میں ان کے مقام کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتواں باب مجموعی مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس باب میں مقالے میں جن مباحث پر گفتگو کی گئی ان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنےکی کوشش کی گئی ہے اور منٹو کی اردو ادب میں اہمیت اور ان کے متعین مقام و مرتبے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اردو ادب کی دیگر اصناف افسانہ نگاری،ڈرامہ نگاری اور منٹو کی صحافتی زندگی سے ان کی کالم نگاری کا بھی اجمالا ًتذکرہ کیا گیا ہے اور اردو مضمون نگاری اور خاکہ نگاری پر ان کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ نیز اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ منٹو کے مضامین اور خاکوں میں کون سے اشتراکات ہیں کہ ان کا جائزہ ایک ہی مقالے میں لینے کی ضرورت پیش آئی۔ اسی طرح ان کی تخلیقی نثر پر ان کی غیر افسانوی نثر کے اثرات کا بھی ایک مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔
Loading...
Loading...

Similar Books

Loading...

Similar Chapters

Loading...

Similar News

Loading...

Similar Articles

Loading...

Similar Article Headings

Loading...

وسدی جھوک دے لوگ

وسدی جھوک دے لوگ

اساں وسدی جھوک دے لوگ ھاسے

 

ساڈیاں جھمراں میلے جاگے ہن

ساڈے سارے بھاگ سھاگے ہن

 

ایں ہسدے وسدے ویلے وچ

ہک دھرتی جایا آیا ھا

 

ساکوں نندروں آنڑ جگایا ھا

او روشن سجھ امیدیں دا

 

او نور ھا ساڈیاں دیدیں دا

پر وقت دے اندھے آمر کوں

 

اونھ ویلھے دے ہک جابر کوں

ساڈا رل کے جیونڑ نی بھانڑاں

 

ساڈا سانجھا تھیونڑ نی بھانڑاں

او غاصب روح دیاں فصلاں دا

 

او قاتل ساڈیاں نسلاں دا

اونھ خوشبو کو زنجیر کیتا

 

ساڈے سجھ کوں آنڑ اسیر کیتا

پچھیں رات اندھاری ڈھک گئی اے

 

اوندیں نانویں وینڑ کریندے ھویں

اونھ نسل دی کمر وی جھک گئی اے

 

رل سانجھا تھیو مڑ چاھندے ہن

متاں وستیاں ساڈیاں وس پوون

 

متاں وستیاں ساڈیاں وس پوون

متاں جھوک تے ساول ول آوے

 

اینہ آس تے ھنڑ پئے جیندے ھیں

اوندا لعل بلاول ول آوے

                                                                                                                جیے بھٹوجیے، جہانگیر مخلص

 

 

The Present Day Applications of Initial Muslim-Christian Interactions.

Throughout history, Interfaith Dialogue has been a continuous activity in Muslims and Christians alike. According to the historian, incident of Wafad-e-Najran[i] (Najran’s Delegation) was the first ever regular interaction between Muslims and Christians.  Therefore, this incident has an academic and historic importance in Muslim -Christian perspectives.  The Holy Quran describes this incident in detail. First 80 verses of Surah Ale-Imran were revealed in this context.  Further information is found in the books of Hadith, Seerah and Islamic History. This incident can become a base for modern Muslim- Christian Dialogue and we can derive from it some basic principles of Dialogue. This article elaborates the incident of Wafad-e-Najran, its importance and also derives some important rules from it. These principles are: interfaith tolerance, harmony, communication, understandings, peaceful co-existence, honour and respect, wisdom and beautiful reasoning, common basis for interfaith dialogue, Daw’ah and perfection of Hujjah. This article also describes its applications in the Present Dialogue.   [i] Wafad-e-Najran:   It is an Arabic word, used in Hadith History and other Islamic literature. It is meant by Najran’s Delegation and I shall use throughout the article as Wafad-e-Najran. 

Impact of Job Satisfaction and Organizational Commitment on Turnover Intentions in Banking Sector of Pakistan

Human Resource Capital is the most integral part of any organization. Retention of human resources is a critical issue these days. Keeping in view the importance of human capital and its retention, present study aimed to explore the impact of two strong predictors, job satisfaction and organizational commitment, on turnover intentions of employees in banking sector of Pakistan. 250 Survey questionnaires are distributed through convenience sampling in Islamic and Conventional banks to elicit responses of professionals among which 207 questionnaires are returned and used for analysis. Linear regression analysis is conducted to recognize the impact of job satisfaction and organizational commitment on turnover intentions. Findings reveal surprisingly contradictory results from previous studies. Job Satisfaction and organizational commitment are having very negligible impact on turnover intentions. However, similar to previous studies both job satisfaction and organizational commitment are negatively correlated with turnover intentions. The study discovered that turnover intentions of employees in banking sector of Pakistan depend on various other factors too. Results reveal that although students are not much satisfied neither they are much committed with the organization but still they have minimal intention towards leaving the organization. Results are surprising but the paradox can be understood by keeping in view few demographics of respondents as well as the economic condition of the country. The study has significant decision-making suggestions for banks that they are urgently required to look for those critical influential factors that largely affect the turnover intentions of their employees. In addition, banks also need to apply measures to enhance the job satisfaction and organizational commitment of their valuable employees in order to gain sustainable competitive advantage by making them more efficient and productive.