ریاضؔ حسین چودھری( ۱۹۴۱ء،پ)کا اصل نام محمد ریاض حسین ہے۔ آپ محلہ خراساں مسلم بازار سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔گورنمنٹ مرے کالج سے بی۔ا ے کیا۔ایل ایل بی اور ایم۔ اے اردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ آپ چھٹی کے طالب علم تھے جب آپ نے شعر و شاعری کا آغاز کیا۔(۱۰۱۱)شاعری میں ابتدائی رہنمائی آسی ضیائی رامپوری سے لی۔ آپ نے آغا صادق کے سامنے بھی زانوئے تلمذ طے کیے۔ ۱۹۵۹ء میں آپ نے بچوں کے لیے ایک نظم لکھی جو ماہنامہ ’’پھلواری‘‘ میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں آپ نے نظم اور غزل میں شاعری کی لیکن نعتیہ شاعری ان کی پہچان ہے۔ ان کی پہلی نعت، ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ سید آفتاب احمد نقوی کی ترغیب پر ریاض حسین چودھری کا رجحان نعت کی طرف بڑھا پھر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے اپنے آپ کو صرف نعت کے لیے وقف کر دیا ۔ بہترین نعت گو شاعر ہونے کی وجہ سے ۲۰۰۰ء میں آپ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔(۱۰۱۲)
ریاضؔ حسین چودھری کا پہلا شعری مجموعہ ’’خونِ رگِ جاں‘‘ ہے۔ جو ملی نظموں پر مشتمل ہے۔ جو ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ زرِ معتبر ‘‘ نعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں اور دوسری بار۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ دو سو اٹھاسی صفحات پر مشتمل ہے۔حفیظ تائب نے اس کتاب کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ریاض حسین چودھری نے ’’تحدیث نعمت‘‘ کے عنوان سے اس کتاب پر تعارفی مضمون لکھا ہے۔ اس مجموعے کا فلیپ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے۔ جس میں زرِ معتبر کی نعتیہ شاعری پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’رزقِ ثنا‘‘ہے جو پہلی بار ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ اور دوسری بار ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ اس نعتیہ مجموعے پر انھیں صدارتی ایوارڈ ملا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی اور حفیظ تائب نے اس کتاب...
الملخص:
يقدم البحث رؤية نقدية بمنظار المقاربة الجمالية لأهم علامات التواصل الأيقوني –الصورة الفوتوغرافية، وبما تقدم من العرض عن مفهوم الصورة والكلمة بوصفهما وسط نسيجي مركب من العلامة الكلمية والصورية المتداخلة؛ لطبيعتهما السيميائية، وتداولها خطاباً يثري السرد ويغني الأحداث بتوجهه الدلالي، وبما تحمله الصورة من كفاءة وقوة بإيقاع النظام التواصلي، وما يكمن فيها من عناصر إفهاميه تمكّن من ادراك البعد المقصدي، وما لها من تأثير على القارئ وتوجيه لما فيه فائدة اجتماعية وإنسانية ونفسية، لذا فقد تمركزت محاور البحث على وصف الرسالة البصرية القائمة على اهم المحاور الكلاسيكة التي ابتدعها جاكبسون: المرسل (مبتدع النص)، المرسل اليه (المتلقي)، الرسالة (الصورة/ الكلمة)، والتركيز على اهم المرتكزات الثلاث (الصورة/ الكلمة) بوصفهما اشتغالا في المقاربة السيميولوجية، ضمن مجال البلاغة الرمزية ومدى تفوقهما في استحضار المعنى وقوفا عند الصورة الفوتوغرافية بالاعتماد على اهم أيقوناتها عبر بنية النص الصغرى والتي تجعلها اكثر استنطاقا بمهارة الفواعل الدرامية للصورة الفوتوغرافية عند تفكيك عناصرها واعادة تركيبها ضمن تكوينها الاوحد من اجل تقديم فعلا حركياً يضفي على الحكائية التوسع في السرد وتفاعلها مع بنية النص الكبرى، لذا يصبح القارئ امام شبكة متداخلة من مظاهر الحكي، فتشكل رؤية وبعداً فنياً يريد الكاتب إيصالها إليه بعدما اصبحت ظاهرة في نصه الروائي، لتختتم دراسة البحث حول اهم النتائج التي توصل إليها الباحث.
The concept of organizational learning has been the area of attention for academicians, practitioners, and
researchers for decades. Organizational developments as a subject realized the significance of cognitive
learning and behavioral development; and embraced the idea of ‘learning organization’ because of its
potential to create and sustain competitive advantage in an organization. The purpose of the study is to explore
the characteristics of a learning organization and examine the relationship of organizational learning and
competitive advantage. Knowledge acquired is disseminated through learning in organization. It is noted that
the petroleum companies are knowledge intensive and learning oriented, equipped with latest technologies
and facing intense competition.
In Pakistan, no empirical research work has been done to explore the concept of learning organization to date.
Literature review revealed systems thinking, mental models/culture, shared vision/mission, leadership,
knowledge/information flow, personal mastery and team learning as antecedents of a learning organization.
Survey questionnaire was distributed in all four strata of petroleum companies and in response of 225
questionnaires 170 were received back, out of which 165 were valid. Multiple regression analytic technique
was applied to test the hypotheses. Statistical analysis revealed that all chosen characteristics of a learning
organization significantly contribute towards achievement of competitive advantage. Shared vision and
systems thinking emerged as most significant contributors.
This study signifies the impact of learning to achieve competitive advantage and requires the attention of
executives and practitioners of organization development. It demands that the concept of learning
organization if implemented with strategic intent in petroleum companies of Pakistan can be a sustainable
source to develop and prepare organizations to cope up and adapt the environmental changes proactively.