حضرت علی
ہدایت اللہ خان
Department of Islamic Studies
Allama Iqbal Open University
Public
Islamabad
Islamabad
Pakistan
2017
Completed
125ص
Urdu
Classification: 340.59 ح ض ا
2022-07-09 15:11:20
2023-02-17 21:08:06
1676729823010
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Mphil | University of Balochistan, کوئٹہ | |||
PhD | The University of Lahore, لاہور | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
Mphil | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
MA | Gomal University, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
Mphil | Qurtuba University of Science and Information Technology, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
Mphil | University of Balochistan, کوئٹہ | |||
MA | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
MA | Gomal University, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
Mphil | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | University of Balochistan, کوئٹہ | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
BS | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
Mphil | University of Sargodha, سرگودھا | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
المدد
(ارادھنا)
زندگی بھی، موت بھی تو دیتا ہے
موسموں کے راستے سنوار کر۔۔۔!
ابابیلوں ، بلبلوں اور کبوتروں کو بھیجتا ہے
اے عشق۔۔۔!
پتھروں کو موم کرتے ہوئے بیاباں کو لالہ زار کرنے والے
میں تجھے سبز پتوں پر خط لکھ کر۔۔۔!
لذتِ حقیقت میں ڈوبے چشموں کا۔۔۔،
طواف کرنے والی ہوائوں کے سپرد کروں
تیرے زائروں کی ۔۔۔!
صبح و شام خانقاہی دیواروں کو چومتا پھروں
تو تاثیرِ وصل کی انتہا۔۔۔
تو جوازِ ہجر کا مدعا
خواب کو جھنجھوڑتی ۔۔۔تعبیر کی رگوں میں دوڑتی وفا
اے شافی۔۔۔!
تو ہی بیمار کرتا ہے۔۔۔ تو ہی شفا دیتا ہے
اے خالقِ ارض و سما۔۔۔ اے طبیب ِ کون و مکاں۔۔!
میرا وسیلہ ہے خیر الوریٰ۔۔۔ المد دالمدد۔۔!
یا محصی ، یا محیطُ۔۔۔ المد دالمدد
میں بہلول کی باتیں اطمینان سے سنتا رہا کیونکہ اس کی باتوں میں کہیں کہیں نثری نظم کا اسلوب خوب صورت انداز میں نظر آیا تھا۔ وہ سامنے والے شخص کی فکر آلود سوچ کو معنویت کے ساتھ ، شفق کی تعلق داری میںلے آنے کا ماہر نظر آتا تھا۔ اسی لیے میں نے اپنے قیام کوطویل کرنے کا سوچا ۔ شاید وہ میری سوچ کو پڑھ چکا تھا۔ اسی لیے وہ میرے بولنے سے پہلے بول پڑا۔
اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔خوشبو قید نہیں ہو سکتی۔ شاخیں ہوں گی تو پھول کھل سکے گا۔ بصورتِ دیگر صرف اک بیج ہے جس میں ساری دنیا قید ہے۔ اگر بیج کو سازگار موسم ، زمین ، روشنی اور پانی ملے گا تب ہی وہ روشنی، ہوا کے ساتھ پرندوں کو اپنی طرف بلانے کے قابل ہو گا۔ اسی لیے میں ایک جگہ رہ نہیں سکتا۔ آج ہوائوں کے ساتھ سورج سے باتیں کر رہا ہوں۔۔۔کل نہ جانے کہاں۔۔۔ستاروں کے ساتھ سرگوشیاں کرتے ہوئے، کس حالت میں پڑا...