عبدالغفار
حید رشاہ
Mphil
University of Balochistan
کوئٹہ
2018
Urdu
شخصیات
2023-02-16 17:15:59
2023-02-19 12:20:59
1676730809081
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Mphil | University of Balochistan, کوئٹہ | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, Bahawalpur, Pakistan | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
MA | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of Sindh, Jamshoro, Pakistan | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
MA | Gomal University, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
PhD | University of Sindh, Jamshoro, Pakistan | |||
PhD | University of Sindh, جام شورو | |||
- | University of Balochistan, کوئٹہ | |||
Mphil | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of Sindh, جام شورو | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | Hazara University Mansehra, مانسہرہ | |||
Mphil | Hazara University Mansehra, مانسہرہ | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, فیصل آباد | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
ڈاکٹر سید عبداﷲ
ڈاکٹر سید عبداﷲ ۱۴؍ اگست ۱۹۸۶ء کو لاہور میں اس عالم فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کو سدھارے، اس خبر کو سن کر دل کو ویسی ہی چوٹ لگی جیسے اپنے خاندان کے کسی عزیز فرد کی دائمی جدائی سے لگ سکتی تھی، ان کی رحلت سے علم و ادب کی ایک زمردیں مسند خالی ہوگئی، وہ علمی حلقوں میں عربی زبان کے قدر شناس، فارسی شعر و ادب کے رمز شناس، اردو کے عناصر خمسہ اور شعراء کے اداشناس، علامہ محمد اقبال کے جوہر شناس، اور اپنی نظر و فکر کے نکتہ شناس کی حیثیت سے یاد کیے جائیں گے، پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانے میں شاہین اور عقاب بن کر جس طرح جھپٹے، پلٹے اور پلٹ کر جھپٹے، اس کی یادیں بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہیں گی، ان کی تصانیف سے یونیورسٹی کے اساتذہ نے اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو سمجھ کر جس طرح طلبہ کو سمجھایا، اس کی عنبریں یادیں بھی زریں حروف سے لکھی جائیں گی، اور پھر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی تکمیل کر کے لوگوں کی دیرینہ آرزوؤں کے ریگ زار کو جس طرح شاداب مرغزار بنادیا، اس کی یادوں کے کنول بھی ہمیشہ کھلے رہیں گے، اور کس کو اس سے انکار ہوسکتا ہے کہ وہ علم و فن کے سیاروں میں عطارد بن کررہے، اور ساٹھ ۶۰ سال کی علمی خدمت کے بعد اسی حیثیت سے رخصت ہوئے۔
میری یادوں کی شبستان میں وہ اس طرح دکھائی دیں گے کہ وہ مجھ سے مل رہے ہیں، گلے لگارہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ میں تو اپنے کو مولانا سید سلیمان ندویؒ کا فرزند معنوی سمجھتا ہوں، ان ہی کی تحریروں سے تحقیق کرنا سیکھا ہے، میں تم سے ملتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ سگے بھائی سے مل رہا...