سمیہ ارم
ساجد اسداللہ
Mphil
Riphah International University, Faisalabad
فیصل آباد
2017
Urdu
فحاشی و عریانی , مذاہب عالم , تقابلی جائزہ
2023-02-16 17:15:59
2023-02-19 12:33:56
1676730913163
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
PhD | GIFT University, گوجرانوالہ | |||
PhD | National University of Modern Languages, اسلام آباد | |||
PhD | National University of Modern Languages, Islamabad, Pakistan | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
Mphil | GIFT University, Gujranwala, Pakistan | |||
MA | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
MA | Gomal University, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
PhD | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | University of Karachi, Karachi, Pakistan | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
PhD | The University of Lahore, لاہور | |||
Mphil | University of Peshawar, پشاور | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
Mphil | The University of Lahore, لاہور | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
MA | Riphah International University, Faisalabad, فیصل آباد | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
صہباؔ لکھنوی
صہبا لکھنوی مدت سے بیمار تھے، وہ خلقتاً بھی نحیف اور کمزور تھے، اس کے باوجود افکار کی ترتیب و ادارت اور اس سے متعلقہ کاموں کی نگرانی کرتے تھے، بالآخر ۳۱؍ مارچ ۲۰۰۲ء میں پیامِ اجل آگیا، مرحوم ’’افکار‘‘ کے بانی مدیر تھے اور صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صلہ و ستائش سے بے پروا ہوکر ادب پروری اور صحافت وادب کے فروغ کے لیے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوتی تھی۔
صہبا صاحب کا اصل نام سید شرافت علی تھا، ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا، مگر وہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے، تقسیم سے پہلے یہیں رہایش پذیر تھے اور ۱۹۴۵ء میں یہیں سے ماہنامہ افکار جاری کیا اور اپنی ساری قوت و توانائی اسی میں لگا دی، ان میں شعر و ادب اور نقد و نظر کی جو صلاحیتیں اور قابلیتیں پنہاں تھیں۔ ان کو افکار کے لیے قربان کردیا اور اپنے نوک خامہ سے دوسرے ارباب قلم کی تحریریں چمکاتے اور افکار میں شایع کر کے ان کی ہمت و حوصلہ بڑھاتے اور ان کی عزت افزائی کرتے، انہوں نے بڑے بڑے ادیبوں کی تحریروں کے معاملے میں اپنا حقِ ادارت محفوظ رکھا اور ان کی کوئی رورعایت نہیں کی۔
تقسیم کے بعد کراچی آئے تو افکار نے یہاں سے دوسرا جنم لیا، صہبا صاحب مالی مشکلات اور دوسری پریشانیوں سے دوچار ہوئے اور لوگوں کی نکتہ چینی کا نشانہ بنے مگر افکار کی خدمت و ترقی میں ہمہ تن منہمک رہے، رات دن اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے افکار ہی ان کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا، ان کے پاس زیادہ سرمایہ نہ تھا لیکن جو کچھ اور جس قدر تھا سب افکار کی نذر کردیا۔ اپنے بعد بھی اس کو جاری رکھنے کے لیے افکار فاؤنڈیشن...