مسعود الحسن تحسین
سعید الرحمٰن
Mphil
Bahauddin Zakariya University
ملتان
2000
Urdu
تعارف تفاسیر , احکام القرآن
2023-02-16 17:15:59
2023-02-19 12:33:56
1676730975230
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
MA | Riphah International University, Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
MA | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
ڈاکٹر مختار احمدانصاری مرحوم
۹؍ مئی ۱۹۳۶ء کی شام کو سات بجے کے قریب میں ڈیرہ دون کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک موٹر تیزی سے آئی اور نکل گئی، میں نے دیکھا کہ اس پر ڈاکٹر انصاری بیٹھے ہیں، سرکھلا تھا اور چہرہ سے بے حد تکان معلوم ہوتا تھا، رات گزر گئی اور صبح کو ان کی قیام گاہ کی تلاش کی، معلوم ہوا کہ وہ رات ہی دلّی چلے گئے، لیکن جب شام ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ رات دلّی نہیں گئے، راستہ سے سیدھے جنت کو سدھارے، دل دھڑکا آنکھیں پرنم ہوئیں اور سینہ سے آہ کا ایک شعلہ اٹھا، جس نے صبر و تمکین کی متاع کو جلا کر خاکستر بنادیا۔
ڈاکٹر مختار احمد انصاری گو نسب و وطن کے لحاظ سے ضلع غازی پور کے ایک ممتاز قصبہ یوسف پور کے ایک نہایت شریف خاندان سے تھے، مگر در حقیقت ان کا تعلق پورے ہندوستان سے تھا، اس یوسف کا کنعان، وہ محدود مقام نہ تھا، جس کو یوسف پور کہتے ہیں، بلکہ پورا ہندوستان تھا، اسی لئے آج پورے ہندوستان نے ان کی موت کا ماتم کیا، کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا سکھ، کیا عیسائی سب نے یہی جانا کہ آج ان کا حقیقی بھائی اس دنیا سے چل بسا۔
میں نے ڈاکٹر انصاری کو سب سے پہلے ۱۹۱۲ء میں اس وقت دیکھا جب وہ بلقان کی جنگ میں طبی وفد لے کر ترکی جارہے تھے اور اس تقریب سے لکھنؤ اسٹیشن سے گزر رہے تھے، مولانا شبلی اور بہت سے لوگ لکھنؤ اسٹیشن پر ڈاکٹر صاحب کو الوداع کہنے گئے تھے، اس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر ۳۰، ۳۲ برس کی تھی، کھلتا ہوا رنگ، دُبلا پتلا چھریرا بدن کشیدہ قامت، ہنستا چہرہ، انوری یا قیصری مونچھیں، جسم پر چست خاکی وردی،...