مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی؍ حکیم عزیز الرحمان مؤی؍ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری
افسوس ہے کہ گذشتہ دنوں ہماری مجلس علم و دانش کو مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی، حکیم عزیز الرحمان مؤی اور ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری جیسی اہم شخصیتوں سے محروم ہونا پڑا، قرآن مجید اور علوم دینیہ کی تبلیغ، تفہیم اور توسیع میں ان کی خدمات لائق تحسین رہیں، دارالمصنفین سے ان حضرات کا تعلق اخلاص و تعاون کا تھا، معارف میں ان تینوں کی نگارشات آتی رہیں، افسوس ہے کہ اب ان کی جگہ لینے والے نظر نہیں آتے، اﷲ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے حسنات کو قبول کرے اور جنت الفردوس کی نعمت سے نوازے، معارف میں ان کا ذکر تفصیل سے آنا چاہیے، آئندہ شماروں میں شاید یہ ضرورت پوری کی جاسکے۔ (’’ع ۔ ص‘‘، نومبر ۲۰۰۹ء)
Islam is a religion of peace and tolerance. This fact is very much evident from the very title of Islam. In this research article, the author explores the meaning of Islam, Salam (Peace), and Tasa muh (Tolerance), lexicologically and technically, and finds the integral mutual relationship between, Islam, peace and the observance of tolerance. Peace is the foremost feature and goal of Islam, to which this religion leads and guides. The observance of tolerance is essential to achieve a peaceful environment in a heterogeneous and pluralistic human society. This paper confirms from the Quran, Ahadith and Sirah of the holy prophet Muhammad r that how much Islam and the prophet r of Islam are concerned about the maintenance of peace and how intense the advice and the teachings of tolerance are in Islam. Islam believes in the peaceful living with the people of different faiths, cultures, creeds and colours. For this purpose, Islam respects and ensures the observance of basic human rights and the essential freedom of religion, thought, expression, etc. The author determines the meaning, scope and parameters of peace and tolerance, so as the Muslim may not misunderstand the concept of peace and tolerance and may not go to the extent that they compromise with the Islamic spirit
تبدیلی زمان کے تبدیلی احکام پر اثرات : علامہ ابن القیم رح کی آراء کی روشنی میں عصری معنویت۔
ایم فل کے اس مقالہ میں بنیاد ان احکام کو بنایا گیا ہے جن میں عرف و عادت اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی و تغیر کی گنجائش موجود ہوتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کن مسائل میں یہ تبدیلی واقع ہق سکتی ہے اور کن کن شرائط پر یہ تبدیلی ممکن ہوگی ، اس عقدہ کو حل کرنے کے لئے اس مقالے کو ترتیب دیا گیا ہے ، جو کہ تین ابواب پر مشتمل ہے ، جس میں سب سے پہلے باب میں تعارفی مباحث ہیں ، جیسا کہ علامہ ابن القیم رح کی حیات و خدمات ، چونکہ اس موضوع میں بطور خاص علامہ ابن القیم رح کے نقطہ نظر مو منقح کرنے کی حتی الوسع کوشش ہے ، لہذا انکے تعارف کروانے کی یہی وجہ ہے ۔
اسکے بعد اصل الموضوع کی طرف رجوع کرتے ہوئے تغیر کا اثبات اور اسکی حدود قیود کا سابقین فقہاء کا نقطۂ نظر بیان کیا گیا ہے۔
اس باب کی آخری فصل میں ان فقہاء کے نقطہ ہائے نظر کا مدار تلاشنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دو سرے باب میں تغیر کی اصل روح اور نچوڑ "تصور مصلحت" کا فقہاء متقدمین و معاصرین کی آراء کی روشنی میں تصور واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح اس باب کی فصل ثانی میں علامہ ابن القیم رح کی تغیر کے متعلق آراء اور ان کے دائرہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔
تیسرے اور آخری باب میں علامہ ابن القیم رح کے پیش کردہ اصولوں پر ان مسائل کی تخریج ہے جو مختلف ابواب فقہ میں قابل ترجیح رہے ہیں ، جن کی روشنی میں آج کے جدید مسائل کو حل کرنے کی ایک جد و جہد کی جا سکتی ہے ۔