محمد اصغر
محفوظ احمد
Mphil
University of Faisalabad
فیصل آباد
2010
Urdu
تعارف تفاسیر , ضیاء القرآن
2023-02-16 17:15:59
2023-02-19 12:20:59
1676732172739
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Mphil | University of Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
Mphil | University of Faisalabad, فیصل آباد | |||
BAH | Government College University Lahore, لاہور | |||
MA | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | The University of Lahore, لاہور | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
BAH | Government College University Lahore, لاہور | |||
PhD | The University of Lahore, لاہور | |||
Mphil | University of Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
BAH | Government College University Lahore, لاہور | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | University of Gujrat, گجرات | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | University of Sargodha, سرگودھا | |||
Mphil | University of Management & Technology, لاہور | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
بعض اوقات استفہام اقرار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ مقصد غور و تدبر کے بعد مخاطب کو اقرار واعتراف پر آمادہ کرنا ہے۔ قرآنی ادب میں اسلوب کے بڑے عمدہ طریقے سےاستعمال کیا گیا ہے ۔ جیسے :
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا”[[1]]
"کیاوہ بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو (١) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی) اس آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے ان کا یہ جرم باور کرانا چاہتاہے کہ تمہاری ازل سے یہ کوشش رہی ہے کہ تم کتاب کے اس حصے پر ایمان لاتے ہو جو تمہاری خواہشات کےمطابق ہو اور جو تمہاری ہوائےنفس کی تکمیل میں رکاوٹ بنے اس کا انکار کر دیتے ہو کیا تمہارے یہ رویہ نہیں رہا ہے" ۔
"أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ، وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ"[[2]]
"کیا اس نے ان لوگوں کی ساری چالیں بیکار نہیں کر دی تھیں؟ او ران پرغول کے غول پرندے چھوڑ دیے تھے"۔
یہاں سوال کرنا مقصود نہیں بلکہ مخاطب کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ایسا ہو چکاہے ۔
" قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (۹۵) وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ"۔[[3]]
"تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے "۔
قاضی ثناء اللہ پانی...