محمد اعجاز تارڑ
محمد اسلم خان
MA
Gomal University
ڈیرہ اسماعیل خان
2003
Urdu
شخصیات
2023-02-16 17:15:59
2023-02-17 21:08:06
1676732238175
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
MA | Gomal University, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
MA | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of Sindh, جام شورو | |||
PhD | University of Sindh, جام شورو | |||
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
PhD | University of Sindh, Jamshoro, Pakistan | |||
Mphil | University of Agriculture, Peshawar, پشاور | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | The University of Lahore, لاہور | |||
PhD | University of Karachi, کراچی | |||
Mphil | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | Gomal University, ڈیرہ اسماعیل خان | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
مارماڈیوک پکھتال
مارماڈیوک پکھتال انگریزی کے بلند پایہ انشاء پرداز انگریز تھے، مدت تک مصر اور ترکی میں رہے تھے اور وہیں اسلام کے تاثرات نے ان کے دل میں گھر کیا تھا اور اسلام کے سچے پیرو ہوگئے تھے، ۱۹۲۰ء میں لندن میں ان سے جمعہ کی نماز میں اسلامی جماعت خانہ میں ملاقات ہوا کرتی تھی، وہ بالکل مسلمانوں کی طرح نماز پڑھا کرتے تھے، جماعت خانہ میں ان کی ترکی ٹوپی نماز کے لئے رکھی رہتی تھی، جس کو وہ نماز کے وقت پہن لیتے تھے، لارڈ کرومر کے زمانہ میں مصر میں تھے۔
ترکی اور رواں عربی زبان بولتے تھے اور جانتے تھے، ترکوں کی ہمدردی میں طرابلس کے زمانہ میں کچھ رسائل لکھے تھے، لندن میں ان سے گھنٹوں باتیں ہوا کرتی تھیں، اس کے بعد ہی وہ بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر ہوکر آگئے، چنانچہ وہاں بھی ان سے ملاقات ہوئی، پھر وہ حیدرآباد دکن چادر گھاٹ ہائی اسکول کے ہیڈماسٹر اور وہاں کی سول سروس کے اتالیق ہوگئے تھے، اس زمانہ میں جب حیدرآباد جانا ہوا، محبت سے مجھے اپنے یہاں بلاتے رہے، اسی زمانہ میں قرآن پاک کا ترجمہ شروع کیا، غالباً ۱۹۲۷ء میں مدراس میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو اپنے انگریزی ترجمہ کا ذکر کیا، اور سورۂ مریم کا ترجمہ دیکھنے کو دیا، وہ کہتے تھے کہ مولوی محمد علی لاہوری کے غلط سلط ترجمہ کو انگریزوں کے ہاتھوں میں دے کر شرماتا ہوں اور جی چاہتا ہے کہ اس کا ایک آتشیں ترجمہ کروں جو دلوں کو گرما دے، چنانچہ حیدرآباد کی مالی امداد سے مصر جاکر اس ترجمہ کو پورا کیا اور چھپا اور یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے، یہ وہ نومسلم انگریز تھے جو ایمان کے ساتھ عملاً نماز و روزہ کے پابند تھے، اﷲ تعالیٰ ان پر رحم و کرم فرمائے۔