ساجدہ بی بی
محمد حامد رضا
MA
Government College University Faisalabad
فیصل آباد
2016
2018
Urdu
تعارف تفاسیر , سعدی
2023-02-16 17:15:59
2023-02-16 22:08:49
1676732465460
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan | ||||
Mphil | The University of Lahore, لاہور | |||
MA | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
Mphil | Government Postgraduate College Mansehra, منڈی بہاوٴالدین | |||
Mphil | University of Sargodha, سرگودھا | |||
Mphil | University of Sargodha, سرگودھا | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
MA | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Lahore, لاہور | |||
Mphil | University of Gujrat, گجرات | |||
Mphil | The University of Lahore, لاہور | |||
Mphil | Allama Iqbal Open University, اسلام آباد | |||
BAH | Government College University Lahore, لاہور | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | University of the Punjab, لاہور | |||
Mphil | University of Faisalabad, فیصل آباد | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
مولاناحفیظ الرحمن واصف
گذشتہ مہینے (۱۳ مارچ) کواجڑنے اور باربار بسنے والی دلّی کی ایک اور فخر روزگار شخصیت مولانا حفیظ الرحمن واصف کی شکل میں اس دنیا سے اٹھ گئی اور دلّی کی بساط علم و دین اورادب وشعر پرچھایا ہوا اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا، ان کی وفات پر محدود صحافتی اورعلمی حلقوں میں اضطراب اور ہلچل کی کمزورسی کیفیت نظر آئی جو مولانا حفیظ الرحمن واصف جیسی جلیل القدر شخصیت کے ماتم کے لیے نہ صرف ناکافی بلکہ کہناچاہیے کہ ان کی رفعت شان سے حددرجہ کم تر تھی۔ وہ ان ٹمٹماتی ہوئی شمعوں میں سے ایک شمع تھے جوآزادی سے پہلے اورآزادی کے بعد کی دہلی کی تمدنی تبدیلیوں اورلسانی اورسماجی تلاطم کی نوعیت اور کیفیتوں کی عکاس تھی اوروہ خود آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے درمیان نہ صرف حدِ فاصل کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ ان کاشمارسماجی انقلاب حال کے مشہور ماتم گساروں اور میرؔ،سوداؔ، غالبؔ ،حالیؔ اورداغؔ جیسے نوحہ خوانوں میں ہوتاتھا۔
وہ اس خانوادۂ علم وشریعت کے چشم وچراغ تھے، جس نے ۱۸۵۷ء میں اجڑنے والی دہلی کواز سر نوسجانے اور بہاروں سے آراستہ کرنے میں حصہ لیا تھااور ایک پورے تمدن کی تباہی کے بعد اس کے ملبہ سے نئی اوردلآویز عمارت تعمیر کرنے کی ہمت دکھائی تھی۔
وہ حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ کے فرزند دلبند اوران کی سیرت اور خصلت کے بے شمار پہلوؤں میں ان کے حقیقی وارث اور جانشین تھے۔انہوں نے آنکھ کھول کراپنے یگانہ روزگار والد کے علاوہ جن لوگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں، اور جن کی صحبتوں سے فیض اٹھایا تھاوہ سب وہ لوگ تھے کہ اب ان کا ثانی، دہلی کی سرزمین پرشاید ہی چشم فلک کوکبھی دیکھنا نصیب ہو۔
آج کی دہلی میں ان کاوجود بہاروں کی یادگار یاغالب کے الفاظ میں داغِ فراق صحبت شب کی...