محمد عارف،حافظ
ہمایوں عباس شمس
Mphil
Government College University Faisalabad
فیصل آباد
2014
Urdu
فقہی مسائل , تصوف
2023-02-16 17:15:59
2023-02-19 12:20:59
1676733636177
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
PhD | Government College University Faisalabad, فیصل آباد | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
Mphil | Riphah International University, Faisalabad, Pakistan | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Mphil | GIFT University, گوجرانوالہ | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
Mphil | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
BS | ICFW, لاہور | |||
Mphil | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
Mphil | Minhaj University Lahore, لاہور | |||
PhD | University of the Punjab, لاہور | |||
PhD | University of the Punjab, Lahore, Pakistan | |||
MA | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
PhD | The Islamia University of Bahawalpur, بہاولپور | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | University of the Punjab, لاہور | |||
MA | Bahauddin Zakariya University, ملتان | |||
Title | Author | Supervisor | Degree | Institute |
خان الخلیلی بازار
مسجد حسین کے باہر دالان میں بڑی تعداد میں ریستوران موجود ہیں جہاں کھلی فضا میں سیکڑوں میز اور کرسیاں لگیں تھی ۔چند مصری نوجوان گٹار بجا رہے تھے باقی لوگ محظوظ ہو رہے تھے۔نماز کے وقت موسیقی بند تھی ۔دکتور محمود نے کہا یہ ذہنی ہم آہنگی مصری قوم کا خاصہ ہے وہ ایک دوسرے کو بہ زور نہیں روکتے ۔مذہب اور محبت ہم مصریوں کی گھٹی میں ہے مگر ہم اس کے ذریعے ایک دوسرے کوجنت یا جہنم رسید نہیں کرتے ۔ہم جیو اور جینے دو کے اصولوں پر زندگی گزارتے ہیں ۔محمود کی گفتگو میرے دل میں ترازو ہو رہی تھی ۔میری فکر جیو اور جینے دو کے آفاقی اصول کو پاکستانی معاشرے میں ٹٹول رہی تھی ،مگر میری یہ تلاش بے سود تھی ۔مذہبی دھڑے بندیوں ،قوم پرستی ،لسانی تفاوت ،علاقائی بغض اوپر سے حکمران طبقے کی اس ملک اور عوام کے ساتھ چیرہ دستیوں نے پاکستانی معاشرے سے ان دونوں اصولوں کو ناپید کر دیا ہے ۔ مسافر اس سماجی اور مذہبی تخریب پر اپنی سوچوں میں غلطاں تھا جو نائن الیون کے بعد پاکستانی سماج میں انتہا کو پہنچی کہ اس دوران چہل قدمی کرتے کرتے ہم مسجد حسین سے اچھا خاصا فاصلہ طے کر چکے تھے اچانک دکتور محمود نے کہا کہ ہم خان الخلیلی بازار میں کھڑے ہیں ۔فکری پرواز سے زمینی حقائق کی طرف پلٹے تو اپنے آپ کو ایک تنگ مگر مصروف بازار میں پایا ۔چودھویں صدی کے اواخر میں ترک عثمانی دور میں بننے والے اس بازار کا پرانا نام ’’ترکی بازار تھا ‘‘جو بعد میں خان الخلیل کے نام سے مشہور ہوگیا ۔مجھے اس بازار میں لاہور کی انار کلی اور بنکاک کی نانا سٹریٹ کی شبیہ نظر آئی جہاں ہجوم کی حالت یہ تھی کہ ’’نظر چرا کے...